تحریر: مولانا صادق الوعد قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی | موجودہ معروضی حالات میں، ہم اسلام اور انقلابِ اسلامی کے لئے کیا کر سکتے ہیں، بلکہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ عبادت اور بندگی میں سب افضل عبادت، تفکر ہے، یعنی سوچنا۔
ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ سے ضرور یہ سوال کریں، بلکہ یوں سوال پوچھیں: جیسے حالات چل رہے ہیں، خدا نخواستہ اس انقلاب کو کوئی گزند پہنچا، یا یہ انقلاب کمزور پڑ گیا تو آگے کیا خوفناک نتائج برآمد ہوں گے؟
ان نتائج کو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمیں سوچنے کی عادت جو نہیں ہے، یا اگر ہم سوچتے بھی ہیں تو بس اپنے ارد گرد کی حد تک ہی سوچتے ہیں۔
اگر اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے سے پہلے ہم (شیعہ مذہب) سے خیبر، خندق و غدیر کا بدلہ لے رہے تھے تو اب ان چالیس سالوں میں دشمنوں کو جو چوٹ لگی ہے، آٹھ ارب انسانوں میں چار سو ملین شیعہ کی کیا حیثیت؟ مگر پھر بھی ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف حق کا پرچم بلند کرنے کی جرأت کر رہے ہیں، بشر کو حیوان بنانے کا پورا بندوست کر چکے تھے، مگر نور اسلام اور مکتب اہل بیت علیہم السّلام اس راہ میں فولادی دیوار بن کر مانع بنا ہوا ہے۔
سو اگر یہ نور حق اس زمین سے بجھ جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا پھر تاریکستان، ظلمستان اور فسادستان و ۔۔میں بدل جائے گی۔ پھر حاکمیت اللہ، عدالت، انسانیت ظلم کی مخالفت جیسے بنیادی اصول، کتابوں کی زینت بن کر رہ جائیں گے اور شاید دوبارہ یہ چراغ روشن ہونے میں کئی صدیاں لگیں اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑے۔
اگرچہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ مایوسی کفر ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں ہے کہ ہم متحرک بھی نہ ہو جائیں، اپنے وظائف سے پیچھے رہیں، لوگوں کو علم و شعور دینے کی کوشش نہ کریں، پوری دنیا کو عدل وانصاف سے پر کرنے کی الٰہی زمہ داری سے ہاتھ کھینچیں، ہرگز نہیں!!
پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
پچھلے ایک سال سے ہم نے ناقابلِ برداشت نقصانات اٹھائے، ایک سے بڑھ کر ایک عظیم انسانوں کو کھو دیا اور اب اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کو محاصرہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اس لئے اس وقت شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے فوری طور پر وہیں ضرور شکست ہونی چاہیے۔
اسے شکست دینے کے لیے ہمیں اپنی توان اور وسعت کے مطابق، جو کچھ کر سکتے ہیں اسے کرنا ہوگا۔
فی الحال جو کام ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ کہ میڈیا پر منظم انداز میں لوگوں کو خاص کر دوسروں کو یہ باور کروائیں کہ شام میں ہونے والی تبدیلی غیر اسلامی اور غیر مشروع امر ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے ولی امر مسلمین نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے بیان کیا، کیونکہ اگر ہم لوگوں کو یہی نکتہ سمجھا سکیں تو پوری تحریک کو لپیٹا جا سکتا ہے۔
ایک طرف غاصب اسرائیل کا شام پر حملہ اور پھر ملک میں داخل ہونا تو دوسری طرف ان باغیوں کا جواب نہ دینے کا فیصلہ، یہ بہترین دلیل ہے کہ ان سب کا کنٹرول روم ایک ہے، ایک ہی چشمے سے پانی پیتے ہیں۔
اس کے علاوہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ کا تحریر شام کو دہشت گردی کی لسٹ سے خارج کرنے کا عندیہ، یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہے کہ یہ عالمی طاقتوں کا مقاومت کے خلاف نیا محاذ ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یاد رکھیں!
جس طرح نماز اور روزہ ایک مسلمان پر واجب ہے، اسی طرح نظامِ اسلامی کا دفاع کرنا بھی واجب ہے۔ انقلابِ اسلامی، ایران میں ضرور آیا ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انقلاب کا دفاع بھی صرف ایرانیوں پر واجب ہو۔